🧟 نفرت شاعری
نفرت کا اپنا کوئی گهر نہیں ہوتا
جہاں محبت دیکهتی ہے وہاں اپنا گهر بنا لیتی ہے
ٖ
اگر کبھی نفرت ہو جائے ہم سے تو سچے دل سے ایسی دعا کر دینا
تمہاری دعا بھی پوری ہو جائے اور میری زندگی بھی
ٖ
ضرورت ہے مجھے نئے نفرت کرنے والوں کی
پرانے والے تو اب چاہنے لگے ہیں مجھے
ٖ
اس کے آخری الفاظ بھی یہ تھے
تم سے انسانیت کا کیا نفرت کا بھی رشتہ نہیں رکھنا
ٖ
کچھ لوگ نظروں سے ایسے اتر جاتے ہیں وہ پھر نفرت کے قابل بھی نہیں رہتے
ٖ
مانا کہ ہم تیری محبت کے قابل نہیں ہیں
پر اتنی بھی نفرت نہ کرو کہ ہم جی نہ سکیں
ٖ
کسی صورت انہیں نفرت ہو ہم سے
ہم اپنے عیب خود گنوا رہے ہیں
ٖ
خدا سلامت رکھے انہیں جو مجھ سے نفرت کرتے ہیں
پیار نہ سہی کچھ تو ہے جو صرف مجھ سے ہی کرتے ہیں
ٖ
محبت کی طرح نفرت کا بھی سال میں ایک ہی دن طے کر دو کوئی
یہ روز روز کی نفرتیں اچھی نہیں لگتی
ٖ
ٹوٹ جائے گا تیری نفرت کا محل اس وقت
جب ملے گی خبر تجھ کو کہ ہم نے یہ جہاں چھوڑ دیا