🧛 اداس شاعری
ہمارے گھر کا پتا پوچھنے سے کیا حاصل
اداسیوں کی کوئی شہریت نہیں ہوتی
ٖ
کبھی کبھی ہم اتنا ٹوٹ جاتے ہیں
سمجھ نہیں آتا کہ ہم اکیلے رہیں
خاموش رہیں روئیں
یا پھر کسی سے اپنا دکھ بانٹیں
ٖ
کبھی کبھی ہم اتنا ٹوٹ جاتے ہیں
سمجھ نہیں آتا کہ ہم اکیلے رہیں
خاموش رہیں روئیں
یا پھر کسی سے اپنا دکھ بانٹیں
ٖ
آرزو تو ہے کہ اظہار محبت کر دوں
لفظ چنتا ہوں تو حالات بدل جاتے ہیں
ٖ
ہم کبھی بھی کسی کے لیے اہم نہیں ہوتے۔۔۔یہ سب ہمارے وہم کا کھیل ہے کہ اگر ہم اچانک کہیں غائب ہو جائیں تو کوئی ہمارا منتظر رہے گا۔۔۔یہاں کوئی کسی کے واسطے نہ منتظر رہتا ہے نہ بے چین۔۔۔لوگ اور چیزیں اتنی تیزی سے ہماری جگہ کو بھر دیتی ہیں کہ کبھی کبھی ہم واپس لوٹ کے بھی آئیں تو خود کا آنا۔۔خود پہ بھاری گزرنے لگتا ہے
ٖ
پائل نہیں پہنتی ہیں کچھ حسینائیں اپنے پاؤں میں
بس ایک کالے دھاگے سے ہی قہر برساتی ہیں
ٖ
زمانہ کیا جانے سبب میری آنکھوں کا
ہم آنکھوں میں سمندر لئے پھرتے ہیں
ٖ
اداسی بہت بھوکی ہوتی ہے
انسان کی مسکراہٹ کو کھا جاتی ہے
ٖ
ہم بھی مسکراتے تھے کبھی بے پرواہ انداز سے
دیکھا ہے آج خود کو کچھ پرانی تصویروں میں
ٖ
میرے چہرے سے نہ اندازہ لگانا کہ یہ عمر
مجھ پہ بیتی ہے بہت میں نے گزاری کم ہے
ٖ
خوف آیا تھا مجھے پہلے پہل
اب تو ہنس دیتا ہوں اپنی ویرانی پر
ٖ
باہر سے بہت سے روپ بدلے میں نے
مگر اندر سے آج بھی سنسان ہوں میں